Pages

Sunday, July 1, 2012

توحيد



زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلہ علم کلام

روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

میں نے اے میر سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے
'قل ھو اللہ، کی شمشیر سے خالی ہیں نیام

آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام !


شاعر ۔علامہ محمد اقبال


(بشکریہ ۔۔ علامہ اقبال ڈاٹ کام)

Monday, June 25, 2012

تمہارے اور خدا کے درمیان ۔۔ Between you and God


لوگ اکثر اوقات ، غیر معروضی غیر منطقی اور خود پرست ہوتے ہیں ، کوئی بھی وجہ ہو اُنہیں معاف کر دو 

اگر تم رحم دل ہو تو لوگ تم پر خود غرض اور مفاد پرست ہونے کا الزام عائد کریں گے ،  پھر بھی رحم دل بنو

اگر تم کامیاب ہو ، تو تمہیں کچھ جھوٹے دوستوں اور کچھ سچے دشمنوں کا سا تھ حاصل ہو گا ، پھر بھی کامیابی حاصل کرو

اگر تم ایماندار اور خوش اخلاق ہو،  تو لوگ تمہیں دھوکہ دے سکتے ہیں ، پھر بھی ایمانداری اور خوش اخلاقی اپناؤ

 تمہاری آج کی نیکی اور احسان کو لوگ کل  بھلا دیں گے ، پھر بھی نیکی اور احسان کرتے رہو

تم اپنے مستقبل  کو تعمیر کرنے میں عمر بسر کر دو گے اور لوگ  اسے ایک رات میں تباہ کر دیں گے ، پھر بھی اپنی تمام قوتیں اپنے مستقبل کی تعمیر میں سرف کرو

اگر تم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہو ، تو لوگ تمہیں دیکھ کر رشک میں مبتلا ہوں گے، پھر بھی ایک خوشحال زندگی کی جستجو کرو

اگرچہ تم معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بھی وقف کر دو ، پھر بھی تم محسوس کرو گے کہ تمہاری کوششیں رائگاں جا رہی ہیں ، پھر بھی  اپنی بہترین صلاحیتیں معاشرے کی بہتری کے لیے وقف کر دو

اگر تم  ان تمام باتوں پر غور کرو اور اپنے تمام دنیاوی معاملات کا تجزیہ کرو ، تو تم یہ حتمی نتیجہ نکالو گے کے سب کچھ صرف تمہارے اور خدا کے درمیان ہے، یہ تمہارے اور لوگوں یا تمہارے اور دنیا کے درمیان ویسے بھی کبھی نہیں تھا


Mother Teresa -- مدر ٹریسا

Friday, June 15, 2012

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے -- Faiz Ahmad Faiz

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے

دل مدّعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایّام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیض غزل ابتدا کرو
وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے

بشکریہ  جمشید --  شاعر  فیض احمد فیض)

Tuesday, June 12, 2012

Bu Ali Qalandar -- بوعلی قلندر

حیدریّم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم


میں حیدری ہوں، قلندر ہوں، مست ہوں، میں علی مرتضیٰ (ع) کا بندہ ہوں۔


پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
میں تمام رندوں کا امام ہوں کہ شیرِ خدا کے در کا سگ ہوں۔


من بغیر از علی نہ دانستم
ھو الاعلیٰ، ھو العلی گفتم
میں علی (ع) کے علاوہ کسی کو بھی نہیں جانتا، وہی اعلیٰ ہیں، وہی بلند ہیں، بس یہی کہتا ہوں۔


غیرِ حیدر اگر ہمی دانی
کافری و یہود و نصرانی
تُو اگر حیدر (ع) کے علاوہ کسی کو جانتا و مانتا ہے تو پھر کافر ہے، یہودی ہے یا عیسائی (یعنی ان کو ماننا ایمان کا حصہ ہے اور نہ ماننے سے ایمان نہیں رہتا)۔


شاہبازے فضائے لاہوتم
مستِ صہبائے مرتضیٰ ہستم
میں لاہوتی (زمان و مکان، کائنات سے ماورا) فضا کا شاہباز ہوں کہ میں بادۂ مرتضیٰ (ع) سے 
    بشکریہ-- محمد وارث
---------------------------------------------
ک اور ذریعے سے)
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
جام مہر علی ز در دستم
بعد از جام خوردم مستم
کمر اندر قلندری بستم
از دل پاک حیدری ہستم


میں نے حضرت علی کی محبت کا جام پیا
پینے کے بعد میں مست ہو گیا
میں نے قلندری کے میدان میں قدم رکھا
 دل و جان سے میں حیدری  
ہو گیا 


حیدریم قلندرم مست
بندہ مرتضٰی علی ہستم
از مئے عشق شاہ سرمستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
من بغیر از علی نہ دانستم
علی ولی اللہ از ازل گفتم
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
غیر حیدری ہمی اگر دانی
کافری و یہودی و نصرانی
بہشت ایمان علی فمیدانی
بپدیری کہ ایں مسلمانی
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
سرگروہ تمام رندانم
رہبر سالکم عارفانم
ہادی عاشقانم مستانم
کہ سگ کوئے شیر یزدانم
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
نہ رسد کئے حشمت و جاہش
منم عثمان مروندی بندہ درگاہش
برزماں ہست حال ما  آگاہش
بوصالش بود سدا خواہش


حضرت علی کے مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچا
میں عثمان مروندی آپ کی بارگاہ کا غلام ہوں
آپ ہر زمانے میں میرے حال سے واقف رہے ہیں
آپ سے ملاقات کی ہمیشہ خواہش رہی ہے



azkalam --  بشکریہ  

اقبالیات -- Iqbaliat

واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے 
اونچی ہے ثریاسے بھی یہ خاک پراسرار

Tuesday, May 29, 2012

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں -- افتخار عارف

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

جنہیں متاعِ دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئینے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کے کِھلے تھے گلاب آنکھوں میں

مری غزال تری وحشتوں کی خیر کی ہے
بہت دنوں سے بہت اِضطراب آنکھوں میں

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تیری بے انتساب آنکھوں میں



شاعر  افتخار عارف 


 zara si dair ko aye thay khawab ankhon main
Phir uss kay bad haey Musalsal Azab ankhon main.

ماں اک عظیم سرمایہ

 وہ میری بدسلوکی میں بھی مجھے دعا دیتی ہے
آغوش میں لے کر سب غم بھلا دیتی ہے

یوں لگتا ہے جیسے جنت سے آرہی ہو خوشبو
جب وہ اپنے پلو سے مجھے ہوا دیتی ہے

میں اگر کروں انجانے میں کوئی غلطی
میری ماں اس پر بھی مسکرادیتی ہے

کیاخوب بنایا ہے رب نے رشتہ ماں کا
ویران گھر کو بھی جنت بنادیتی ہے

ماں کے بعد میرا کون سہارا ہے
یہی سوچ کبھی کبھی مجھے رلادیتی ہے

-- Wo meri Badsalooki main mujey Dua Deti hai
Aagoash main lay kar sab Ghum Bhola deti hai --