Pages

Tuesday, May 29, 2012

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں -- افتخار عارف

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اُس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

جنہیں متاعِ دل و جاں سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئینے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کے کِھلے تھے گلاب آنکھوں میں

مری غزال تری وحشتوں کی خیر کی ہے
بہت دنوں سے بہت اِضطراب آنکھوں میں

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تیری بے انتساب آنکھوں میں



شاعر  افتخار عارف 


 zara si dair ko aye thay khawab ankhon main
Phir uss kay bad haey Musalsal Azab ankhon main.

ماں اک عظیم سرمایہ

 وہ میری بدسلوکی میں بھی مجھے دعا دیتی ہے
آغوش میں لے کر سب غم بھلا دیتی ہے

یوں لگتا ہے جیسے جنت سے آرہی ہو خوشبو
جب وہ اپنے پلو سے مجھے ہوا دیتی ہے

میں اگر کروں انجانے میں کوئی غلطی
میری ماں اس پر بھی مسکرادیتی ہے

کیاخوب بنایا ہے رب نے رشتہ ماں کا
ویران گھر کو بھی جنت بنادیتی ہے

ماں کے بعد میرا کون سہارا ہے
یہی سوچ کبھی کبھی مجھے رلادیتی ہے

-- Wo meri Badsalooki main mujey Dua Deti hai
Aagoash main lay kar sab Ghum Bhola deti hai --